تہران، 5/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی) ایران کی پارلیمنٹ نے حال ہی میں حجاب کے حوالے سے ایک نیا سخت قانون منظور کیا ہے جس کے تحت حجاب نہ پہننے یا اس کی مخالفت کرنے والی خواتین کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ یہ قانون ایسے وقت میں پاس کیا گیا ہے جب ملک بھر میں حجاب کی پابندیوں کے خلاف مزاحمت بڑھتی جا رہی ہے۔ اگرچہ ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے اس قسم کی سختیوں پر کئی بار اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، لیکن قانون سازوں نے پھر بھی اس بل کو منظور کر لیا۔ ایرانی عدلیہ نے سابق صدر ابراہیم رئیسی کے احکامات کے تحت اس بل کا مسودہ تیار کیا تھا، جس کا مقصد حجاب اور عفت کے اصولوں کو سختی سے نافذ کرنا ہے۔ ایران میں 1979 کے انقلاب کے بعد سے خواتین کے لیے عوامی مقامات پر حجاب پہننا لازمی قرار دیا گیا تھا، لیکن 2022 میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے یہ مسئلہ تنازعے کی صورت اختیار کر چکا ہے، اور حجاب نہ پہننے والی خواتین کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
آئیے اب جانتے ہیں کہ آخر حجاب سے متعلق نیا قانون کیا ہے۔ ایرانی میڈیا رپوٹس کے مطابق یہ قانون عوامی مقامات اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر صحیح طریقے سے حجاب نہ پہننے یا پوری طرح سے حجاب کو ترک کرنے والی خواتین پر 20 ماہ کی تنخواہ کے برابر جرمانہ لگانے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ جرمانہ 10 دنوں کے اندر ادا کرنا ہوگا۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس خاتون کو متعدد اقسام کی سرکاری خدمات، مثلاً پاسپورٹ کی تجدید یا اجراء، ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء اور ایگزٹ پرمٹ جاری کرنے سے محروم کر دیا جائے گا۔
اس قانون کے تحت ادراوں کو پولیس کی مدد کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج مہیا کرانی ہوگی جس سے ان خواتین کی پہچان کی جا سکے۔ اگر اداروں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو ان پر بھی جرمانہ عائد کیا جائے گا، یا ادارہ کو ہی معطل کر دیا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ قانون ’عریانیت‘ یا پردہ نہ کرنے کو فروغ دینے والے لباس، مجسمے اور کھلونے جیسی اشیاء کے ڈیزائن یا تشہیر کو بھی مجرمانہ عمل قرار دیتا ہے۔ اس کے علاوہ وزارت صنعت، کانکنی اور تجارت کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ کپڑوں کے مینوفیکچررز اور سپلائرز پر نظر رکھے۔ ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنائیں کہ کپڑے حجاب سے متعلق قوانین کے عین مطابق ہوں۔
حجاب کے متعلق ایران کے نئے قانون پر تنقید کرتے ہوئے ایرانی سیاسی تجزیہ کار مریم محمدی کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد خواتین کی جدوجہد کو روکنا ہے۔ محمدی کے مطابق یہ قانون خواتین کے مطالبات کو روکنے، انتظامیہ کی نظریاتی سوچ کی حوصلہ افزائی کرنے، روز مرہ کی زندگی میں تنازعات پیدا کر کے معاشرے کی سوچ کو ختم کرنے اور خواتین کی انقلابی صلاحیتوں کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ مریم محمدی نے یہ بھی کہا کہ ’’ایران کی خواتین نے اب خود کو کسی بھی قسم کے اختیارات سے سمجھوتہ اور رواداری کو ختم کر دیا ہے۔ ان کے سامنے اب صرف دو راستے ہیں آزادی یا موت۔‘‘